بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، رہبر انقلاب نے عوام براہ راست نشری تقریر میں ایرانی قوم کے اتحاد، یورینیم افزودگی اور امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے اہم نکات بیان کئے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ امام سید علی خامنہ ای (حفظہ اللہ) فرمایا:
• میں [ہجری شمسی کی تقویم کے مطابق] مہر کے مہینے، تعلیم، اسکول، اور دانش اور دانشگاہ (یونیورسٹی) کے مہینے، کی آمد پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ یہ تعلیم و تربیت، علم و دانش کا موسم ہے۔ یہ لاکھوں نوجوانوں اور بچوں کے علم و توانائی کی طرف سفر کا آغاز ہے۔ یہی مہینہ مہر کی خاصیت ہے۔
• میں اپنے ملک کے عزیز حکام، خاص طور پر تعلیم، اعلیٰ تعلیم اور صحت کے محکموں کے ذمہ داران کو تلقین کرتا ہوں کہ وہ نوجوان ایرانیوں کی صلاحیتوں کی اہمیت کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں۔ ایرانی نوجوانوں نے علم اور زندگی کے دیگر شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔
• میں یہاں ایک اعداد و شمار پیش کرنا چاہتا ہوں: حالیہ 12 روزہ جنگ اور دیگر چیلنجوں کے باوجود، دنیا بھر کے مختلف مقابلے میں ہمارے طلباء نے چالیس رنگارنگ تمغے حاصل کیے ہیں، جن میں سے گیارہ سونے کے تمغے ہیں۔ یہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔
• بین الاقوامی شرکت کنندہ ممالک میں ہمارے طلباء نے فلکیات (Astronomy) کی اولمپیاڈ میں پہلا درجہ حاصل کیا۔ دیگر مضامین میں بھی انہوں نے اعلیٰ درجے حاصل کیے ہیں۔ کھیل کے میدان میں بھی، جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں، پہلے والی بال اور اب کُشتی میں، ہمارے نوجوانوں نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ الحمدللہ، ان کی صلاحیتیں غیر معمولی ہیں۔ ان سے ضرور فائدہ اٹھانا چاہئے۔
سید حسن نصراللہ چلے گئے لیکن جو اثاثہ انھوں نے خلق کیا ہے وہ باقی ہے
• میں ضروری سمجھتا ہوں کہ ان دنوں عظیم مجاہد سید حسن نصراللہ کی شہادت کی برسی کے موقع پر ان کی یاد تازہ کروں۔ سید حسن نصراللہ نہ صرف تَشَیُّع کے لئے بلکہ عالم اسلام کے لئے ایک عظیم اثاثہ تھے، نہ صرف لبنان کے لئے، بلکہ پورے عالم اسلام کے لئے ایک قیمتی سرمایہ تھے۔ البتہ یہ اثاثہ ضائع نہیں ہؤا۔ یہ سرمایہ باقی ہے۔ وہ چلے گئے، لیکن یہ جو اثاثہ انھوں نے تخلیق کیا تھا، وہ باقی ہے۔ حزب اللہ لبنان کی کہانی ایک مسلسل کہانی ہے۔ حزب اللہ کو کبھی بھی کم نہیں سمجھنا چاہئے اور اس اہم اثاثے سے غفلت نہیں برتنا چاہئے، یہ اثاثہ لبنان کے لئے بھی ہے اور لبنان کے سوا دوسرے ملکوں کے لئے بھی۔
بارہ روزہ جنگ میں ایرانی قوم کے اتحاد نے دشمن کو مایوس کر دیا
• ایرانی قوم کے اتحاد کے بارے میں میری پہلی بات یہ ہے کہ 12 روزہ جنگ میں ایرانی قوم کے اتحاد اور یکجہتی نے دشمن کو مایوس کر دیا۔ یعنی دشمن جنگ کے ابتدائی اور درمیانی ایام میں ہی سمجھ گیا تھا کہ وہ اپنے مقاصد و غرض کو حاصل نہیں کر پائے گا۔
• دشمن کا مقصد صرف کمانڈروں کو نشانہ بنانا نہیں تھا؛ وہ تو ایک ذریعہ تھا [مقصد تک پہنچنے کے لئے] دشمن نے سوچا تھا کہ فوجی کمانڈروں کو مار کر، نظام کی بعض مؤثر شخصیات کو نشانہ بنا کر ملک میں بلوے کھڑے کر سکے گا، اور خاص طور پر تہران میں ان کے عناصر فساد اور اغتشاش برپا کریں گے اور لوگوں کو، جتنا بھی ہو سکے، سڑکوں پر لا ئیں گے، عوام کے ذریعے اسلامی جمہوریہ کے خلاف ایک واقعہ کھڑا کریں گے؛ یہی اصل مقصد تھا۔ لہٰذا مقصد درحقیقت اسلامی جمہوریہ کو نشانہ بنانا تھا۔
دشمن گلی کوچوں میں فسادات کرانا چاہتا تھا
• دشمن کا مقصد نظام کو مفلوج کرنا تھا، جیسا کہ میں نے اس سے پہلے ایک خطاب میں کہا تھا کہ یہ لوگ تو اسلامی جمہوریہ کے بعد کے دور کے لئے بھی بیٹھ کر نقشے بنا چکے ہیں۔ وہ فتنہ و فساد بپا کرنا چاہتے تھے، سڑکوں میں فسادات کرانا چاہتے تھے، گروہوں کو ابھارنا چاہتے تھے اور ملک سے اسلام کی جڑیں اکھاڑنا چاہتے تھے۔ یہی دشمن کا مقصدتھا۔
• خیر، یہ مقاصد پہلے ہی قدم پر ناکام ہو گئے۔ لیکن کمانڈرز وغیرہ [جو شہید ہوئے] کے متبادل کمانڈرز نےعہدے سنبھال لئے اور مسلح افواج کی پوزیشن، نظام، ترتیب اور نظم و ضبط جوں کا توں رہا، اسی طاقت اور بلند حوصلے کے ساتھ۔
• لیکن عوام، جو سب سے مؤثر عنصر تھے، وہ بالکل بھی دشمن کے مطلوبہ عزائم کے زیر اثر نہیں آئے۔ مظاہرے ہوئے، سڑکیں بھر گئیں، لیکن نظام اسلامی کے خلاف نہیں بلکہ دشمن کے خلاف۔ عوام نے معاملے کو اس مقام تک پہنچا دیا کہ دشمن نے جو سرحدوں سے باہر بیٹھے ہیں، اپنے کارندوں سے کہا: "اے ناکارہ لوگو، ہم اور کیا کر سکتے تھے جو تمہارے لئے نہیں کیا؟ ہم نے راستہ ہموار کیا، ہم نے بمباری کی، ہم نے کئی لوگوں کو شہید کیا، قتل کیا۔ تم کیوں کچھ نہیں کر رہے ہو؟"
کچھ لوگ یہ تاثر دینا چاہتے تھے کہ اتحاد صرف جنگ کے دنوں کے لئے تھا، یہ بات سراسر غلط ہے
• ان کے کارندے، جو ایران اور تہران میں موجود ہیں؛ اور ہاں! بے شک ان کے کارندے موجود ہیں، انہوں نے جواب دیا: "ہم کچھ کام کرنا چاہتے تھے لیکن عوام نے ہماری طرف کوئی توجہ نہیں دی، انہوں نے ہم سے منہ موڑ لیا، اور ذمہ دار افراد نظم و ضبط کے محافظوں نے بھی ہمیں روک دیا، رکاوٹ بنے؛ ہم کچھ بھی نہ کر پائے۔" [اور] یوں دشمن کا منصوبہ ناکام ہو گیا۔
• جو کچھ میں نے عرض کیا، ان میں سے کچھ باتیں یا ساری باتیں ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں، دوسروں نے بھی [یہ باتیں] کہی ہیں۔ جس نکتے پر میں زور دینا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ یہ عامل [و بنیاد] بدستور موجود ہے، ملت ایران کے اتحاد کا یہ عامل قائم و دائم ہے۔
• کچھ لوگ ـ جن کے محرکات ملک سے باہر ہیں، جو معلومات ہمیں موصول ہوئی ہیں ان سے یہی کچھ ثابت ہوتا ہے ـ یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ 12 روزہ جنگ کے آغاز پر اور اس عرصے کے دوران جو اتحاد قائم ہؤا تھا، وہ صرف ان ہی چند دنوں کے لئے تھا۔ کچھ دن گذرنے کے بعد یہ بتدریج کمزور پڑ جائے گا، اختلافات پیدا ہوں گے، اختلافِ رائے چھا جائے گا اور یہ اتحاد ختم ہو جائے گا۔ ایران کے لوگ منتشر ہو جائیں گے اور پھر نسلی دراڑوں سے فائدہ اٹھایا جا سکے گا، سیاسی اختلافات کو ہوا دی جا سکے گی، ایران کے عوام کو آپس میں لڑایا جا سکے گا اور فساد اور بغاوت پھیلائی جا سکے گی۔ یہی وہ پیغام ہے جو وہ پھیلا رہے ہیں۔
• میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ بات سراسر غلط ہے۔ ہاں، سیاسی معاملات میں اختلافِ رائے موجود ہے۔ ہمارے ملک میں بہت سی قومیں بھی ہیں جو سب کی سب ایرانی ہیں اور اپنی ایرانی شناخت پر فخر کرتی ہیں۔ یہ سب حقائق ہیں۔ لیکن دشمن کے سامنے، یہ پورا مجموعہ لوہے کے مضبوط گھونسے کی مانند ہے جو دشمن کے سر پر برسے گا۔ آج بھی ایسا ہی ہے، ان شاء اللہ آیندہ بھی ایسا ہی رہے گا، اور ماضی میں بھی ایسا ہی تھا۔
• آج کا ایران اور ان شاء اللہ کل کا ایران بھی وہی ہے جو 23 اور 24 خرداد (13 اور 14 جون 2025ع) کو تھا، جب عوام سڑکوں پر نکل آئے تھے اور ملعون صہیونیت اور جرائم پیشہ امریکہ کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔ یہ پہلی بات تھی جو میں عرض کرنا چاہتا تھا۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ قومی اتحاد، عوام کی یہ یکجہتی اب بھی قائم اور مستقبل میں بھی قائم رہے گی۔ البتہ ہم سب کی اس حوالے سے ذمہ داریاں ہے۔
یورینیم کی افزودگی عوامی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر اثر انداز ہوتی ہے
• دوسرا نکتہ یورینیم کی افزودگی کا معاملہ ہے۔ وزارت خارجہ کے اپنے سیاسی ہم منصوبوں کے ساتھ بات چیت اور گفت و شنید میں "افزودگی" (Enrichment) کا لفظ بار بار دہرایا جاتا ہے۔ وہ افزودگی کے بارے میں کچھ کہتے ہیں، ہم کچھ کہتے ہیں، اور ملک کے اندر بھی مختلف مباحثوں میں یہی کیفیت ہے۔ لفظ "غنی سازی" دہرایا جاتا ہے۔
• میں افزودگی کے بارے میں ایک مختصر وضاحت پیش کرنا چاہتا ہوں۔ آخر یہ افزودگی" (Enrichment) ہے کیا؟ یہ در اصل ہے کیا جو اس قدر اہمیت رکھتی ہے؟ تمام بحثیں افزودگی کے گرد گھومتی ہیں، یورینیم کی افزودگی۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ افزودگی محض ایک لفظ ہے، لیکن اس کے نیچے ایک کتاب جتنی باتیں ہیں جن کی طرف میں اب مختصراً اشارہ کروں گا۔ اگر کچھ لوگ جو اس شعبے کے ماہرین ہیں، عوام الناس سے اس بارے میں بات کریں تو یہ اچھا اور مناسب ہے۔ میں مختصر سی گزارش کروں گا۔
• یورینیم کی افزودگی کا مطلب یہ ہے کہ سائنسدان اور یورینیم کے مسائل سے متعلق ماہرین خام یورینیم کو، جس کی کانیں ایران میں بھی موجود ہیں، پیچیدہ اور جدید تکنیکی کوششوں کے ذریعے ایک انتہائی قیمتی مادے میں تبدیل کرتے ہیں جو لوگوں کے مختلف مسائل پر اثرانداز ہوتا ہے۔
• یہی افزودگی کا مفہوم ہے۔ یعنی وہ چیز جو زمینی کان سے حاصل ہوتی ہے، اسے جدید ترین ٹیکنالوجی، بڑی محنت، اعلیٰ مہارت کے ذریعے ایک ایسے مادے میں تبدیل کیا جاتا ہے، اور وہ مادہ افزودہ یورینیم ہوتا ہے۔ اسے مختلف سطحوں تک افزودہ کیا جاتا ہے۔ اور یہ عوامی زندگی کے مختلف شعبوں میں مؤثر ہے۔
• یعنی عوام مختلف طریقوں سے افزودگی اور افزودہ یورینیم سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور اسے استعمال کرتے ہیں، اور یہ عوامی زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے۔ مثلاً: زراعت میں، زراعت اور خوراک میں پر اس کے وسیع پیمانے پر اثرات ہیں، صنعت اور مواد میں؛ ماحولیات اور قدرتی وسائل میں مؤثر ہے۔ تحقیقات اور تعلیم اور ساننسی پیرویوں میں، اس کے اثرات ہیں۔ بجلی کی توانائی کی پیداوار میں اس کے واضح اثرات ہیں۔ آج دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بجلی گھر یورینیم سے چلتے ہیں۔
• ہم ان [بجلی گھروں] کو زیادہ تر پیٹرول اور گیس سے چلاتے ہیں۔ زیادہ تر پاور پلانٹس کو۔ جس کے اخراجات بھی یقینا بہت زیادہ بھاری ہیں؛ یہ ماحولیات کی آلودگی کا سبب بنتا ہے ہوا کی آلودگی کا سبب بھی ہے۔ لیکن وہ بجلی جو افزودہ یورینیم اور ایٹمی پاور پلانٹس سے حاصل ہوتی ہے، اس بجلی کی آلودگی صفر ہے، اس کے اخراجات بھی بہت کم ہیں، اس [بجلی گھر] کی عمر بہت طویل ہے، اور اس کے بہت سے دیگر فوائد ہیں جو میں نے بیان کئے ـ انہیں ماہرین کو آکر عوام کے سامنے بیان کرنا چاہئے۔
ہم نے افزودگی کو 60 فیصد تک بڑھایا، جس کی ہمارے ملک کو ضرورت ہے
• آج ہم یورینیم کی افزودگی کے معاملے میں ایک اعلیٰ سطح پر ہیں۔ البته وہ ممالک جو ایٹمی ہتھیار بنانا چاہتے ہیں افزودگی 90 فیصد تک بھی لے جاتے ہیں۔ ہميں چونکہ ہتھیار بنانے کی ضرورت نہیں ہے اور ایٹمی ہتھیار نہ بنانے کا فیصلہ بھی کر چکے ہیں، اس لئے ہم اس حد تک نہیں گئے۔ ہم نے اسے 60 فیصد تک بڑھایا ہے، جو کہ ایک بہت ہی اعلیٰ شرح ہے، بہت اچھی شرح ہے، اور اس سطح کا افزودہ یورینیم ملک کے بعض ضروری کاموں کے لئے درکار ہے۔
• ہم نے اسے یہاں تک بڑھانے میں کامیاب ہوئے۔ ہم دنیا کے ان 10 ممالک میں سے ایک ہیں جنہیں یہ صلاحیت حاصل ہے، یعنی میں آپ سے عرض کروں: دنیا کے دو سو سے زائد ممالک میں، صرف 10 ممالک ہیں جو افزودگی کر سکتے ہیں، اور ان 10 ممالک میں سے ایک اسلامی ایران ہے۔ اور باقی، وہ دیگر نو ممالک ہیں جن کے پاس ایٹم بم بھی ہیں، جبکہ ہم وہ ہیں جو ایٹم بم نہیں رکھتے، نہ رکھیں گے، اور ہمارا ارادہ ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کا نہیں ہے، لیکن افزودگی کی صلاحیت ہمارے پاس ہے۔
• 10 ممالک ـ ہم ان 10 ممالک میں اس صنعت کے سرخیل شمار ہوتے ہیں، اور ان سائنسدانوں نے، جن کا میں نے تذکرہ کیا، اس کام کی بنیاد رکھی، بڑی رقوم اس میں لگائیں، لیکن ان کا سب سے اہم کام اس راستے میں بڑی تعداد میں افراد کی تربیت سے عبارت تھا۔
• آج ہمارے ملک میں درجنوں نامور سائنسدان اور ممتاز پروفیسر ہیں ـ یہ وہ رپورٹ ہے جو ماہرین نے ہمیں دی ہے، یعنی یہ ایک مضبوط اور معتبر رپورٹ ہے ـ درجنوں نامور سائنسدان اور ممتاز پروفیسر، سینکڑوں محقق، اور ہزاروں کی تعداد میں ایٹمی گروہوں کے تربیت یافتہ افراد اس موضوع سے متعلق مختلف شعبوں میں سرگرم عمل ہیں، اسی وقت۔
• اب انہوں نے آ کر فلاں فلاں مقامات پر قائم تنصیبات کو بمباری کا نشانہ بنایا۔ معاملہ یہ ہے۔ یہ علم ہے یہ سائنس ہے، علم ختم ہونے والی چیز نہیں ہے، علم بم اور دھمکیوں اور ایسی چیزوں سے ختم نہیں ہوتا، یہ موجود رہتا ہے۔
موجودہ حالات میں امریکی حکومت سے مذاکرات کا ہمارے لئے کوئی فائدہ نہیں ہے
• سیاسی حلقوں کے بیانات میں امریکہ سے مذاکرات کا معاملہ اکثر اٹھایا جاتا ہے، اس پر مختلف آراء بھی ہیں، کچھ لوگ، ـ جیسا کہ میں نے کہا، ـ اسے مفید سمجھتے ہیں، ضروری خیال کرتے ہیں، کچھ لوگ اسے نقصان دہ قرار دیتے ہیں، کچھ لوگوں کی رائے درمیانہ ہے، باتیں مختلف ہیں۔
• میں جو کچھ ان طویل سالوں میں سمجھا ہوں، دیکھ چکا ہوں، محسوس کر چکا ہوں، اور ان حوالوں سے میرا جو تجربہ ہے، وہ ہماری عزیز قوم کے سامنے پیش کرتا ہوں: میری بات یہ ہے کہ موجودہ حالات کے پیشِ نظر ـ ہو سکتا ہے 20 یا 30 سال بعد حالات مختلف ہوں، اُس سے ہمیں اب سروکار نہیں ـ موجودہ صورتِ حال میں امریکی حکومت سے مذاکرات، اولاً، ہمارے قومی مفادات کے لئے ممد و معاون نہیں ہیں، ہمارے لئے ان کا کوئی فائدہ نہیں ہے، اور نہ ہی یہ ہمیں درپیش کسی نقصان کو ٹال دیں گے۔ یعنی یہ ایک ایسا کام ہے جس میں نہ کوئی نفع ہے، نہ ملک کے لئے کوئی فائدہ ہے، اور نہ ہی یہ کسی نقصان کو روکتا ہے۔ قطعاً اس کا ایسا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ یہ پہلی بات ہے۔
یہ مذاکره نہیں، جبر ہے اور اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے
• ثانیاً، اس کے برعکس، [امریکہ سے مذاکرات] کے بعض نقصانات بھی ہیں۔ یعنی نفع تو کچھ ہے ہی نہیں [بلکہ اس کے نقصانات ہیں]، دوسری بات یہ ہے کہ موجودہ حالات میں امریکہ سے مذاکرات ملک کے لئے بڑے نقصانات ہیں، جن میں سے بعض کو شاید ناقابلِ تلافی کہا جا سکتا ہے۔ ایسے نقصانات بھی ہیں، جن کی میں اب وضاحت کروں گا۔
• جہاں تک میری اس بات کا تعلق ہے کہ یہ ہمارے فائدے میں نہیں ہیں، ہمارے لئے ان کا کوئی مفید نہیں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکی فریق پہلے ہی سے مذاکرات کے نتائج خود طے کر چکا ہے، یعنی اس نے اعلان کر دیا ہے کہ وہ صرف اس مذاکرے کو قبول کرتا ہے جس کا نتیجہ ایران میں ایٹمی سرگرمیوں اور افزودگی کا خاتمہ ہو۔
• یعنی ہم امریکہ سے مذاکرات کی میز پر بیٹھیں اور ہماری ان سے بات چیت کا نتیجہ صرف یہ ہو کہ وہی بات ہو جو وہ کہہ چکا ہے، وہی بات ہو جس کا اس نے ہم سے مطالبہ ہے ـ تو یہ مذاکره نہیں ہے، یہ ڈکٹیشن ہے، یہ زبردستی مسلط کرنا ہے۔ بیٹھو، مذاکرہ کرو ایسے فریق سے کہ مذاکرے کا نتیجہ لازمی طور پر وہی ہو جو ہ چاہتا ہے، وہی ہو جو وہ کہتا ہے، کیا یہ مذاکرہ ہے؟
• آج مخالف فریق اس طرح بات کر رہا ہے، کہتا ہے کہ مذاکره کریں اور اس مذاکره کا نتیجہ یہ نکلے کہ ایران کے پاس افزودگی کی صلاحیت نہ ہو۔ اب اس نے افزودگی کی بات کی ہے، اور اس سے چند روز قبل اس کے ایک نائب نے اعلان کیا تھا کہ ایران کے پاس میزائل بھی نہیں ہونے چاہئیں ـ نہ طویل رینج والے میزائل، نہ درمیانی رینج والے میزائل، اور نہ ہی مختصر رینج کے میزائل ہوں۔ یعنی ایران کے ہاتھ اس قدر بندھے اور خالی ہوں کہ اگر اس پر حملہ بھی ہو جائے، تو وہ عراق میں یا کسی اور جگہ امریکی اڈے کا بھی جواب نہ دے سکے۔ اس بات کا یہی مطلب ہے۔
• ہم مذاکره کریں تاکہ یہ نتیجہ نکلے! خیر، یہ تو فائدہ نہیں ہؤا۔ یہ ایسے مذاکرات ہیں جن میں ہمارا کوئی فائدہ نہیں ہے، اس کا پورا نتیجہ ہمارے نقصان میں ہے۔ یہ دباؤ ڈالنا ہے، امریکہ کی زبردستی اور اس کا دھونس دباؤ برداشت کرنا ہے، یہ مذاکره نہیں ہے۔
• جب کوئی اسلامی ایران کا سامنا کرتا ہے، تو اس قسم کی توقعات اور اس قسم کے بیانات ایران کی قوم کو نہ پہچاننے کی عکاسی کرتے ہیں، یہ باتیں اسلامی جمہوریہ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ انہیں علم نہیں ہے کہ اسلامی ایران کی بنیاد، فلسفہ اور راہ و روش کیا ہے۔ یہ باتیں نہ جاننے کی وجہ سے وہ اس انداز سے بولتے ہیں۔ ہم مشہدیوں کے بقول، "یہ بات بولنے والے کے منہ سے بڑی ہے (چھوٹا منہ بڑی بات)" اور یہ بات غور کرنے کے قابل نہیں ہے ـ کہ آئیں مذاکره کریں ایسی چیز کے لئے۔ چنانچ، اس کا ہمارے لئے کوئی فائدہ نہیں ہے۔
ہم افزودگی یا کسی اور معاملے میں نہیں جھکے اور نہ ہی جھکیں گے
• البتہ ان چند دہائیوں کے دوران جب ہم نے یہ کام [یورینیم کی افزودگی کے معاملے میں] ملک میں انجام دیے، ایران پر، ملک کے ذمہ داران پر، ہماری حکومتوں پر دباؤ بھی بہت زیادہ رہا کہ اس دباؤ کے ذریعے ایران اس کام سے دستبردار ہو جائے، لیکن ہم نے جھکنا قبول نہیں کیا اور نہ ہی کریں گے۔
• ہم نے اس معاملے میں اور ہر دوسرے معاملے میں دباؤ کے آگے سرنگوں ہونا قبول نہیں کیا اور نہ ہی کریں گے۔ اب یہ امریکی فریق تو ایک بات پر اڑ گیا ہے کہ ایران کے پاس افزودگی کی صلاحیت ہی نہ ہو۔ پہلے دوسرے [یعنی سابقہ امریکی حکمران] کہا کرتے تھے کہ اعلیٰ سطح کی افزودگی نہ کریں یا اپنے افزودہ مواد کو ملک میں نہ رکھیں ـ وہ ایسی باتیں کہتے تھے جنہیں ہم نے مانا نہیں۔ یہ تو کہہ رہا ہے کہ افزودگی سرے سےہونی ہی نہیں چاہئے، یعنی افزودگی بالکل ہی نہ ہو۔ اس کا کیا مطلب ہے؟
• اس کا مطلب ہے کہ اس عظیم کامیابی کو، جس کے لئے ہمارے ملک نے اتنی محنت کی، اتنا خرچ کیا، اتنی مشکلات جھیلیں، ان تمام کوششوں کے تمام ثمرات کو تم خاک میں ملا دو، ضائع کر دو اور تباہ کر دو! افزودگی نہ رکھنے کا یہی مطلب ہے۔ خیر، ظاہر ہے کہ ایران جیسی غیرت مند ملت ایسی بات کہنے والے کے منہ پر طمانچہ رسید کرے گی اور اس بات کو قبول نہیں کرے گی۔
کوئی بھی باعزت قوم ایسے مذاکرات قبول نہیں کرتی جو دھمکی پر مبنی ہوں
• دشمن نے دھمکی دی ہے کہ اگر تم نے مذاکرات نہ کئے تو وہ ایسا اور ویسا کرے گا ـ اب معلوم نہیں کہ بمباری کریں گے یا کیا کریں گے، ایسی باتیں، تھوڑی مبہم، تھوڑی صریح دھمکی۔ یعنی مذاکرات کرو، اگر نہیں کرو گے تو ایسا ہو گا ـ یہ دھمکی ہے۔ ایسے مذاکرات کو قبول کرنا دھمکیوں کے آگے اسلامی ایران کی جھک جانے کی علامت ہوگی۔ اب اگر آپ اس دھمکی کے تحت مذاکرات کے لئے گئے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم ہر دھمکی کے سامنے فوراً ڈر جاتے ہیں، کانپ جاتے ہیں اور مخالف فریق کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں، یہی اس کا مطلب ہے۔
• اگر یہ دھمکیوں کے سامنے جھکنا شروع ہو گیا تو پھر اس کا کوئی اختتام [اور کوئی آخری حد] نہیں ہے۔ آج وہ کہتے ہیں کہ اگر تم نے افزودگی کی تو ہم ایسا کریں گے، کل کہیں گے کہ اگر تمہارے پاس میزائل ہوئے تو ہم ایسا کریں گے، پھر کہیں گے کہ اگر تم نے فلاں ملک سے تعلقات نہ رکھے تو ہم ایسا کریں گے، اگر تم نے فلاں ملک سے تعلقات رکھے تو ہم ایسا کریں گے۔
• ہر طرف دھمکی، ہم مجبور ہیں کہ دشمن کی دھمکیوں کے سامنے پسپائی اختیار کریں۔ یعنی دھمکیوں کے سائے میں ہونے والے مذاکرات کو کوئی بھی باوقار قوم قبول نہیں کرتی، کوئی بھی دانا سیاستدان اس کی تائید نہیں کرتا۔
• 10 سال پہلے ہم نے امریکیوں کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا، مقصد یہ تھا کہ وہ پابندیاں اٹھائیں اور ایران کا معاملہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) میں معمول پر آجائے۔
• مخالف فریق البته اب یہ کہہ سکتا ہے کہ میں اس کے بدلے تمہیں فلاں رعایت بھی دوں گا۔ وہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ جو چیز وہ رعایت کہہ کر پیش کرتے ہیں، وہ جھوٹ ہے۔
• 10 سال پہلے، ہم نے امریکیوں کے ساتھ ایک معاہدہ منعقد کیا جس کا نام ہمارے ہاں برجام (ایران کے ساتھ 6+1 کے جامع ایکش پلان (JCPOA)) ہے۔ اس معاہدے میں طے پایا تھا کہ ہم ایٹمی معاملات میں یہ کام کریں گے: وہ پیداواری مرکز بند کریں گے، وہ ساڑھے تین فیصد کا مواد جو اس وقت ہم پیدا کر رہے تھے، اسے باہر بھیج دیں گے یا اسے کمزور کرکے ضائع کر دیں گے (یعنی اس کی افزودگی ختم کر دیں گے) اور دوسری شرائط پوری کریں گے۔ انہوں نے بھی اس کے عوض پابندیاں اٹھانے اور 10 سال بعد ایران کا معاملہ IAEA میں معمول پر لانے کا وعدہ کیا تھا۔
• میں نے اُس وقت، جب ملک کے ذمہ داران میرے پاس آئے اور کہا 10 سال، میں نے کہا: بھئی 10 سال تو ایک عمر ہے، آپ 10 سال کیوں مان رہے ہیں؟ انہوں نے کچھ ایسے ویسے دلائل دیے۔ طے تو یہ تھا کہ 10 سال بھی نہ مانیں گے، لیکن بہرحال انہوں نے مان لئے۔ 10 سال ـ 10 سال کا یہ عرصہ اِن ہی دنوں اختتام پذیر ہؤا۔
• وہ 10 سال کا عرصہ، جس میں ایران کا معاملہ ایجنسی (IAEA) میں معمول پر آنا تھا، ان ہی دنوں مکمل ہو گیا۔ آپ خود ملاحظہ فرمائیں، آج نہ صرف معاملہ معمول پر نہیں آیا، بلکہ ملک کے ایٹمی مسائل سلامتی کونسل، اقوام متحدہ اور IAEA میں کئی گنا بڑھ گئے ہیں۔ ہمارا مخالف فریق ایسا ہی ہے؛ اس کا وعدہ بھی ایسا ہی ہے۔
• ہم نے وہ تمام کام کئے جو ہمیں کرنا تھے۔ اس نے پابندیاں نہیں اٹھائیں، اپنے دیئے ہوئے وعدوں میں سے کوئی بھی پورا نہیں کیا، اور پھر تو بالفاظ رائج، اس نے خود اس معاہدے کو، اس مفاہمتی یاداشت یا ماہمت نامے کو، جو طے پایا تھا، پھاڑ ڈالا ـ یا بالکل ہی جامع ایکش پلان (JCPOA) سے نکل گیا اور اسے مسترد کر دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ